Advertisement

Theater of Absurd Concept, Characteristics, Reasons in Urdu - Samuel Becket, Harold Pinter, Theater of Absurd


ہم ہوتے تو مذہبی ہیں مگر مذہب کو اپنے مفاد کے مطابق آن اینڈ آف کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے اردگرد کی روزمرہ مثالیں ہیں۔ پرائیویٹ اسکول چلانے کے لئے گورنمنٹ سکولز کا بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال جلانے کے لئے گورنمنٹ ہاسپٹلز کو برباد کردیتے ہیں۔ پرائیویٹ اسٹیل مل چلانے کے لئے گورنمنٹ سٹیل ملز کا بیڑا غرق کرتے ہیں۔ پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنی ہی ریلوے کا نقصان کروا دیتے ہیں۔ اپنا مذہب تھوڑی دیر کے لئے آف کرتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو مذہب ہمیں منع کرتا ہے۔ پھر مذہبی ہو جاتے ہیں خیال آتا ہے گناہ کیا ہے تو مذہب کو ان کرتے ہیں اور عبادات کر کے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

وجودیت اورتھیٹر آف ابسرڈ
*****************٭٭

وجودیت مذاہب کے خلاف ہے وجودیت کا مذاہب سے کوئی تعلق نہیں ہےلیکن براہ مہربانی ان کا مطالعہ بطور علم کریں۔ میں آپ کو یہ مشورہ بالکل نہیں دوں گا کہ اس جدید سوچ پر عمل کرتے ہوئے آپ اپنا ایمان کھو بیٹھیں اور مذہب سے دور ہو جائیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں اور جدید لٹری ڈیوائسز کا مطالعہ ضرور کریں ان کے بارے میں ضرور سوچیں۔

تھیٹر آف ابسرڈ کی خصوصیات 
*****************٭٭٭

ہم ایک ایسی زمین یا مٹی کی چٹان پر موجود ہے جو بہت وسیع وعریض خلا میں 67 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے کھربوں سال سے بغیر کسی مقصد کے انسان نہ تو اشرف المخلوقات اور عظیم ہے اور نہ ہی کائنات کا مرکز۔

اپنے آپ کو فریب دینے کے بجائے حقیقت کو جانا اور پرکھا جاتا ہے سچائی کے ساتھ انسانی اعمال کی روشنی میں خدا کی موجودگی سے انکار اور انسانی زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں خدا کا بالکل بھی کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ کائنات یہ انسان یہ زندگی بالکل بے مقصد ہے بے معنی لا یعنی درحقیقت اس کائنات کے مقابلے میں ہم گونگے اور بہرے ہیں نہ کسی کی بات ہمیں سنائی دیتی ہے سمجھ میں آتی ہے اور نہ ہی اپنا مفہوم بیان کرنے کے قابل ہیں۔

ترسیل اور ابلاغ کا المیہ 
****************

ہماری اقدار مذہب قانون معاشرہ نیکی بدی جنت جہنم کی شکست و ریخت ضروری ہے۔
تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی
ہے زندگی کا نام مگر کیا ہے زندگی 
نہ ہم اپنی مرضی سے اس دنیا میں آئے اور تمام تر کوششوں کے باوجود بھی یہاں سے جانا ہی پڑے گا موت زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔


زندگی شکست یا موت شکست

*****************٭٭

اور زندگی اور موت کے درمیان کی زندگی بھی شکست ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب ہر طرف سے ہی شکست ہے تو بغاوت کر دو خدا نہیں ہے تو خود خدا بن جاؤ نئی سوچ تلاش اور جستجو جہاں تک ممکن ہے کرو۔ فرسودہ خیالات کو مکمل ختم کر دو اس طرح کی تحریروں کی شروعات ہوتی ہے نہ انجام نہ پلاٹ ہوتا ہے نہ کردار نگاری نہ تو ترتیب ہوتی ہے نایہ ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔ کردار ہیرو کے بجائے اینٹی ہیرو ہوتے ہیں۔ بہت ہی عام اور معمولی انسان شخصیت بہت کمزور ہوتی ہے بالکل بھی پختگی نہیں ہوتی۔ کبھی یہ گونگے اور بہرے ہوتے ہیں کبھی اندھے ہوتے ہیں کبھی معذور ہوتے ہیں کبھی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا دکھائے جاتے ہیں تو کبھی بہت سے وہم ان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ کرداروں کو نا بات سمجھ آتی ہے نہ دوسروں کو اپنی بات سمجھا سکتے ہیں اس لئے عام طور پر گونگے اور بہرے ہوتے ہیں تاکہ انسانوں کے ساتھ ترسیل اور ابلاغ کے المیے کی نشاندہی کی جاسکے اگر کردار بول بھی رہے ہوں تو بے تکی اور سمجھ میں نہ آنے والی ایسی گفتگو کرتے ہیں جیسے کوئی اپنے آپ سے گفتگو کر رہا ہوں۔

تحریری طور پر ہمیں بہت سے صفحات ایسے نظر آئیں گے جس پر کچھ بھی تحریر نہیں ہو گا خاموشی بھی ایک زبان ہے۔

تھیٹر آف ابسرڈ

وجودیت سے بہت قریب ہے یہ انسان کو حقیقت کا سامنا کرنا سکھاتا ہے۔ وجودیت ایک نیا انسان پیدا کرتی ہے جو تمام خوف اور غم سے نجات حاصل کر چکا ہوتا ہے وہ اپنی قسمت خود بناتا ہے بغیر کسی جھوٹ اور فریب کے اپنے آپ کو مکمل طور پر جان جاتا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں پھینک دیا گیا ہے۔ جس طرح لق و دق صحرا میں چیونٹی اور زندگی ایک فریب ہے۔ جیسے جیسے ہمارے عقل و شعور میں اضافہ ہو رہا ہے فریب کی حقیقت ہمارے سامنے آ رہی ہے فریب تکلیف کرب میں تبدیل ہو رہا ہے پھر ہم فریب یا بے معنی لایعنی صورتحال کو مختلف فلسفوں کے ذریعے معنی دینے کی کوشش کرتے ہیں کبھی فلسفے کی شکل میں کبھی مذہب اندھیرا اجالا نیکی بدی سزا اور جزا جنت جہنم مگر شعور اور عقل میں مزید اضافے کے ساتھ ان کی حقیقت اور کھوکھلا پن ہمارے سامنے آگیا اور یہ سب چیزیں جھوٹی ثابت ہوئیں۔ جب ہمیں علم ہو گیا کہ ہم اپنے آپ کو فریب دے رہے تھے تو ہماری تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔ ہم دنیا میں موجود ہیں اس کا احساس ہمیں ہوتا ہے۔ داخلی کیفیات کے ذریعے اور ان کیفیات کو ہم یہ نام دے سکتے ہیں۔
  1. موت 
  2. دہشت 
  3. بوریت 
  4. مایوسی 
  5. کراہت 
  6. جرم 
  7. ضمیر بد 
اگر سوچیں کہ انسان اپنے آپ کو فریب دے رہا تھا اور ایک پر مسرت زندگی گزار رہا تھا معاشرہ مذہب اور روایات کے سہارے اور جب انسان کو سچائی کا علم ہو گیا اور یہ خارجی سہارے ختم ہوگئے اور نتیجے کے طور پر موت دہشت بوریت مایوسی کراہت جرم ضمیر بد جیسی داخلی کیفیات کے ذریعے اسے حقیقت سے آگاہی ہوئی تواب ایک احساس جنم لے گا۔

Post a Comment

1 Comments

  1. The elevation of the human person to the center of any tragedy has become familiar to the theater of the absurd. Here all possible life upsets occur

    ReplyDelete

We are pleased to see you here! Please mention your suggestion or query in the comments box below.